منگل، 12 مارچ، 2019

ربط

 ربط



بتا اے ہمسَفَر مُجھ کو
کہ تنہائی کی راتوں میں
بِچھڑ جانے کی باتوں میں
کسی کے دامنِ صد چاک
اور اِک دوسرے کے ساتھ سے
محروم ہوتے ، چُھوٹتے ،
ہاتھوں سے ہاتھوں میں
بہت بھولے ہُوئے رِشتوں
کبھی بِسرے سے ناطوں میں
کبھی جگجیت کی سِسکی بھری
مسحور کن ، جنجھوڑتی ،
مِرے اِس بربطِ دل کے
سبھی خاموش ، ساکِت ،
مُنجَمِد تاروں کو
ہر دم چھیڑتی آواز میں
کِسی قاتِل ادا کے جان لیوا ،
قاتلانہ ، عاشِقانہ ،
پُر سِتَم انداز میں
کبھی اس دم بہ دم بجتے ،
ابَھرتے ، ڈوبتے ، بِہتے ،
سماعت کی حدوں سے دور رہتے ،
زمانوں کی جفا سِہتے ،
وفا کے نام پر ہر بار رُسوائی کا
سودا مول لیتے
زِندگی کے ساز میں
کِسی لمَحہ ، کِسی دِن ، رات ،
تنہائی کے عالَم میں ،
کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں ،
کبھی دب کر کِسی دِل میں ،
کبھی چُھپ کر ، تڑَپ کر ،
ٹُوٹ کر ، اور اِس
فصیلِ جِسم و جاں سے بھی
بہت آگے نکل کر
خود بخود افشا ہوئے جاتے
کسی دیوانگی اور
ہوش کے مابین جاری
کہے اور اَن کہے
کچھ سیدھے سادھے چند لفظوں ،
چند حرفوں،
چند لمحوں کے بیاں ہوتے
کسی اِک راز میں
کیوں ربط سا محسوس ہوتا ہے
بتا اے ہمسَفَر مُجھ کو؟؟؟
۔۔۔۔
صدائے رستاخیز
محمد حماد یونس خان

شہر پناہ



شہرپناہ

اے ہم سخن
خاموش رِہ
آہٹ نہ کر
یہ رات ہے
یا رات کا اِک عکس ہے
ہے رات کا دستور یہ
(یا جو بھی کہتے ہیں اِسے)
مقصود یہ ، منشور یہ
ہو ہُو کا عالم بس یہاں
اِس ہُو کے عالم میں مِیاں
بس جام کی آواز ہو
یا دِلنَشیں ہمراز ہو
پائل ہو ، مَے ہو ، ساز ہو
از بس ، کہ کیونکر ہو بیاں
یہ رنگ و روغن کا سماں
تاروں کا جیسے کارواں
حرکت میں ساقی ہے کہاں
بس جام مِحوِ رقص ہے
سو ہم سخن
خاموش رِہ
آہٹ نہ کر
یہ رات ہے
یا رات کا اِک عکس ہے
اس رات کی ہر بات میں
ایسے کٹِھن حالات میں
جب سانس پر پِہرے لگیں
حاکم جہاں بِہرے لگیں
نشّے میں ایسے چُور سب
عادت سے ہوں مجبُور جب
منصِف جہاں خنجر رہے
کیوں سوچ نہ بنجر رہے
گولی جہاں قانون ہو
ہر لب کُشا مدفون ہو
ایسی اندھیری رات میں
اس مرکزِ ظُلمات میں
اِک شخص ایسا بھی مِلے
جو سچ کے رستے پہ چلے
جو حق کرے ایسے بیاں
ہو فجر کی جیسے اذاں
ہو رعد کی جیسے کڑَک
ہو برق کی جیسے چمَک
پھر یار کے کوچے سے
لیکر
ہر سُتونِ دار تک
ہر مدرسہ و میکدہ
ہر کوچۂ و بازار تک
جس راہ تھا سرمد چلا
تھا فیض نے جیسے کہا
کچھ روشنی کا ذِکر ہو
خورشید کی بھی فِکر ہو
اِک قافلہ یونہی چلے
تاریک شب ایسے ڈھلے
ایسا کوئی تو شخص ہو
لیکن کہاں وہ شخص ہے
پس ہم سخن
خاموش رِہ
آہٹ نہ کر
یہ رات ہے
یا رات کا اِک عکس ہے
۔۔۔۔
حماد یونس
صدائے رستاخیز