پیر، 15 اکتوبر، 2018

عِشق کی نگری میں کوئی آشیانہ چاہیے

  عِشق کی نگری میں کوئی آشیانہ چاہیے

 
 
عِشق کی نگری میں کوئی آشیانہ چاہیے

اب اُفَق کے پار ہی اِک گھر بنانا چاہِیے

مُہر بر لب بھی رجَز پیہم سُنانا چاہِیے

ہاتھ کٹتے بھی رہیں پرچم اُٹھانا چاہِیے

چارہ گر کی بے رُخی نے یہ سِکھایا ہے ہمیں

ڈوبتوں کو ڈوبتے ہی چھوڑ جانا چاہِیے

مےکدے کی بات چھیڑو بر سبیلِ تذکرہ

گُفتگو کے واسطے کوئی بہانہ چاہِیے

رُو بَرو آجائیے یوں ہی اچانک ، ایک دِن

ہِمّتوں اور حوصلوں کو آزمانا چاہِیے

راہِ اُلفت کا یہی حمّادؔ ہے پِہلا سبَق

جیتنے کی جُستجو میں ہار جانا چاہِیے
۔۔۔۔۔۔
محمّد حمّاد یونس خان
صدائے رستاخیز

کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا

 کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا



 کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا

ایک تو تِیرِ نظَر ، وہ بھی نِشانے والا

المِیہ کم تو نہیں راہِ وفا کا یارو

بات کرتا ہی نہیں بات چلانے والا

جبر والوں کے سبھی حُکم مِری ٹھوکر پر

مَیں ، کہ سر ایک ہی چوکھٹ پہ جُھکانے والا

اُس کی آنکھوں کی اُداسی سے خبَر مِلتی ہے

شہر والو ، کوئی سیلاب ہے آنے والا
!!!
تُو کسی میرؔ کی ، غالبؔ کی غزل ہے ، اور مَیں

خاص کِردار ، کِسی عام فسانے والا

تُو کوئی نظم ، کہ مَیں ہُوں تِرا شاعر جیسے

تُو کوئی گیت ، کہ مَیں ہُوں تِرا گانے والا

سر جو نیزے پہ ہو ، تن ہو مِرا سجدے میں حمادؔ

ایسے سجدے میں بڑا لُطف ہے آنے والا
۔۔۔۔۔
محمّد حمّاد یونُس خان
صدائے رستاخیز

اُلفت کا کوئی دیپ جلاؤ تو کِسی روز

 

 اُلفت کا کوئی دیپ جلاؤ تو کِسی روز

 
اُلفت کا کوئی دیپ جلاؤ تو کِسی روز
 
 اِک شام مُلاقات کو آؤ تو کِسی روز

ہم عُمر گُزاریں گے فقَط اُس کے سہارے

تم عہدِ وفا باندھ کے جاؤ تو کِسی روز

مَیں حالتِ دل اپنی سُناؤں گا کہاں تک
!!!
اب اپنا فسانہ بھی سُناؤ تو کِسی روز

کُچھ اپنی حدِ طاقتِ دیدار ہی دیکھیں

یوں آنکھ کبھی ہم سے مِلاؤ تو کِسی روز

کِس راہ چلے تھے کہ پلَٹ کر نہیں دیکھا
!!!
فُرصت میں کبھی راز بتاؤ تو کِسی روز

ہے سِہل یہی راہ سرِ کُوچۂ جاناں

اِک بار غزَل اُن کو دِکھاؤ تو کِسی روز

مقتل سے نہیں بڑھ کے کوئی جادہ و منزِل

حمّادؔ کبھی دار سجاؤ تو کِسی روز
ــــــ
محمّد حماد یونس خان
(صدائے رستاخیز)

اتوار، 14 اکتوبر، 2018

کِس لیے سنگ دِلو تُم کو صدا دی ہم نے



کِس لیے سنگ دِلو تُم کو صدا دی ہم نے




کِس لیے سنگ دِلو تُم کو صدا دی ہم نے

کِس لیے جُبّہ و دستار گَنوا دی ہم نے


جا محبّت ، تِری توقیر بڑھا دی ہم نے

تِرے کہنے پہ اُسے دِل میں جگہ دی ہم نے


ہم نے ہی دشتِ بلا خیز کو سیراب کِیا

جھیل تھی کوئی کہ اشکوں میں بہا دی ہم نے


بے خودی دیر سے طاری ہے سرِ راہِ وفا

بات کہنے کی نہیں تھی کہ سُنا دی ہم نے


اے فلسطین تِرے دامنِ صد چاک کی خیر

کیا کہیں ، آج تُجھے خوب دُعا دی ہم نے


رقصِ ابلیس پہ سر اپنا جُھکا ہے حمّادؔ

اِس زمانے کو مگر ایک رِدا دی ہم نے
۔۔۔۔۔
محمّد حمّاد یونُس خان
صدائے رستاخیز

پُوچھتے ہیں کہ آخِر کِدھر جائِیے



پُوچھتے ہیں کہ آخِر کِدھر جائِیے



پُوچھتے ہیں کہ آخِر کِدھر جائِیے
!!!
ہوگئی شام تو اپنے گھر جائِیے

کُوئے جاناں کی جانِب اگَر جائِیے

جان و دِل کُچھ بغرضِ نذر جائِیے

روز مر ، مر کے جینے سے کیا فائدہ

اِک دفعہ آپ پر کیوں نہ مر جائِیے
!!!
ہم فقیروں کی ٹھوکر پہ ہیں تاجور
 
تخت پر ہَوں اگر تو اُتر جائِیے

موت کی آس لے کر جِیا کیجِئے

زندگانی کے غم میں گُزر جائِیے

آئِیے آستینوں میں سورج لِیے

پِھر بَمِثلِ چراغِ سحر جائِیے

آبلہ پا بھی ہَوں سُوئے منزِل رواں

پا برہنہ بھی اب تا نظَر جائِیے

کیا خبر اُن کو حمّادؔ آغاز کی
!!!

ہم کو انجام کی کیا خبَر ، جائِیے
!!!
۔۔۔۔۔
محمّد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

عادتیں ہو چلی ہیں اب ، روز عذاب دیکھنا




عادتیں ہو چلی ہیں اب ، روز عذاب دیکھنا


عادتیں ہو چلی ہیں اب ، روز عذاب دیکھنا

آنکھ کا کیا کریں مگر ، آج بھی خواب دیکھنا

جانا کبھی جو طُور پر ، لاکھ سوال پوچھنا

جانِیے کیا مِلے مگر ، ایک جواب ! دیکھنا

دیکھ کِنارِ آب جُو ، کون ہے تیرے رُوبرُو

ایک گھڑا ہے ، ایک تُو ، یار چناب ، دیکھنا

محفلِ غیر میں مگَر ، آئے ہیں ہم بہ چشمِ تر

یُوں ہی ذرا سی اِک نظَر ، یاں بھی جناب دیکھنا

آؤ کبھی مُہَر بہ لب ، بِیت چلی ہو عُمر جب

تُم مِری ڈائیری میں تب ، سُوکھے گُلاب دیکھنا

عشق ہو جب شباب پر ، حُسن ہو آب و تاب پر

فرض ہے ایسے باب پر ، کوئی شراب دیکھنا

چہروں کےخال وخد میں ہی کتنےپیام ہیں حمادؔ

کیسے نصاب دیکھیے ، کاہے کتاب دیکھنا
!!!
محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

فیصلہ آج سرِ بزم سُنا جاتے ہیں

  فیصلہ  آج  سرِ  بزم  سُنا  جاتے  ہیں
 

 


 فیصلہ  آج  سرِ  بزم  سُنا  جاتے  ہیں
 
پِھر پلَٹ کر نہیں آئیں گے ، بتا جاتے ہیں

میری آنکھوں میں ذرا دیکھ ، خبر ہے تُجھ کو؟؟؟

چند قطرے ہیں جو طوفان اُٹھا جاتے ہیں

جانے کِس سَمت کو جاتا ہے یہ دشتِ پُر خار؟؟؟

کیسی منزِل ہے جہاں آبلہ پا جاتے ہیں؟؟؟

اب کے صحراؤں سے باندھیں گے تعلُّق اپنا

آخری اشک تِرے در پہ بہا جاتے ہیں

ہمیں معلوم ، بہلنے کا نہیں ہے یہ دِل

ایک پتّھر چَلو دریا میں گِرا جاتے ہیں

کیا خبر آپ نے بھی یاد کِیا ہو ہم کو

ہم تو محفِل میں یِہی سوچ کے آجاتے ہیں

پایۂِ تخت ہے القُدس مُسلمانوں کا

آؤ حمّادؔ ، یہی دے کے صدا جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیزؔ

رات کا وقت ہے ، تنہائی ہے

رات کا وقت ہے ، تنہائی ہے




رات کا وقت ہے ، تنہائی ہے 

 تہمتِ عِشق ہے ، رُسوائی ہے
  
 پھر کسی یاد نے دستک دی ہے

پھر مِری آنکھ جو بھر آئی ہے
 

اس کو الزام نہ دینا یارو
 

 خود مِرا دِل بھی تو ہرجائی ہے
 

دیدۂ تر ، کِسے معلوم نہیں!!!
 

کتنے سیلاب تُو لے آئی ہے
 

اُن کے رخسار کی مت بات کرو
 

اُن کا تو شیخ بھی شیدائی ہے
 

ڈوبتی سانس ، اُبھرتے ہُوئے ساز
 

کہیں نوحے ، کہیں شِہنائی ہے
 

ایک میں ہی نہیں بِکھرا بِکھرا
 

تیری صورت بھی تو کُملائی ہے
 

اُس نے دیکھا جو پلَٹ کر حمّادؔ
 

گویا صحرا میں بہار آئی ہے

محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

میں مخاطب ہُوں رات والوں سے

میں مخاطب ہُوں رات والوں سے


میں مخاطب ہُوں رات والوں سے
 
 کیوں ہراساں ہو تم اُجالوں سے
 
بات سُنیے ، پلَٹ کے دیکھیے تَو
 
گِر گیا ہے یہ پھول بالوں سے
 
جانے کِس کے ہیں خواب آنکھوں میں

مجھ کو چونکائیے خیالوں سے

کچھ نہیں ہے تو میکدے ہی چلو

پھر مُلاقات ہو پیالوں سے

ہم تو ہیں گردِ راہ اے صاحب

کیا گِلہ ہم خراب حالوں سے

عِشق کا تزکرہ نہ کر حمّادؔ

اِجتناب اسِ کے سب حوالوں سے

محمد حمَاد یونس خان

صدائے رستاخیزؔ

Declaration

My first ever poem in English

........
Listen everyone of this town
Even those who wear a crown
Or you , the one sitting down
Every black or white or brown
For this tale is pretty renown

I am a boy from here
And you may not know where
Neither I am going to share
Nor many of you will care
So we must start from there

That I'm a boy with aim
You don't still know my name
And that is not a shame
Though this one is big game
That our habits are the same

Same as they were eons ago
When archers hunted with bow
(That's not my point although)
Though man is supposed to grow
But he acts to and fro

I tell you without being shy
People came here to try
To counter evil's sly
And let's we have a sigh
For their blood doesn't dry

I am brave enough , you see
Still I shiver too slightly
(It's between you and me)
But they never feared enemy
Those who were Three-One-Three
Better men than thou and me

They went to turn the tide
Even they could go and hide
But still they stood to ride
To war on their stride
When they were on right side

Well , they tried hard I'll say
So their name won't decay
Lions of my God were they
They never let go their prey
Every werewolf did they slay

To final points I should come
But yes , I have left some
Holy Prophet was also among them
Salla Allah o Alaihi Wasallam
Death in his love is welcome

Now I address blasphemes
Whether you are from Orientalists
Or hidden in the lap of atheists
You often call us fundamentalists
We know we are in hit lists

Don't dare to come near to it
The holy name of Holy Prophet
We may are for you misfit
And you are strong I admit
But I don't care even a bit

If I am defending a true boundary
Sacrifices must be made by me
For religion and its superiority
And way to love is much bloody
If death now comes , let it be
.....
M.H.Y.K.
.....
S.R.Khaiz.

ﮨﻢ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ


ﮨﻢ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ





ﮨﻢ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ
 
ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﯾﺎﮞ ﺩَﻭﺭِ ﺟﺎﻡ ﮨﯿﮟ

ﺑﮑﮭﺮﺍ ﮨﮯ ﺧﻮﺏ ﺭﻧﮓِ ﺩﮬﻨَﮏ ﭘﮭﺮ ﺑﮩﺎﺭ ﻣﯿﮟ

ﮨﯿﮟ ﭘﯿﮍ ﺳﺒﺰ ﭘﻮﺵ ﺗﻮ ﮔُﻞ ﻻﻟﮧ ﻓﺎﻡ ﮨﯿﮟ

ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻤﺮ ﺗِﺮﺍ ﮨﯽ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮨﻮ
 !!!
ﺍﮮ ﯾﺎﺩِ ﯾﺎﺭ ﭼﮭﻮﮌ ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ

ﺩﻭﮌﮮ ﺗﮭﮯ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺏ ﺳﻤﮯ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ

ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ ، ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﺗﯿﺰ ﮔﺎﻡ ﮨﯿﮟ

ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺬﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﯿﮟ ﺣﻤﺎﺩؔ

ﺑﺎﻗﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﺑﭽﯽ ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮨﯿﮟ

۔
ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ ﺧﺎﻥ

عُمروں کی مُسافت کا اب اِتنا تو صِلہ دے

عُمروں کی مُسافت کا اب اِتنا تو صِلہ دے



عُمروں کی مُسافت کا اب اِتنا تو صِلہ دے
 
آنکھوں کی زبانی کوئی پیغام سُنا دے
 
نازک ہے بہت مرحلۂ شوق کی منزل
 
کب کوئی خطا اپنی ہی نظروں سے گِرا دے

گُزرے ہُوئے لمحوں کا فسانہ کوئی چھیڑو

ماضی کے دریچوں سے کوئی خواب صدا دے

اِک مَیں ، کہ پُکاروں تُجھے ہر کوہ و دمن سے

اِک تُو ہے کہ ہر چند مِرا نام بُھلا دے

جب تک یہ شبِ تار مُسَلّط ہے جہاں پر

حمّادؔ ، ذرا دیپ کی لَو اور بڑھا دے

محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

ہر نفَس بے ثبات و فانی ہے


ہر نفَس بے ثبات و فانی ہے



ہر نفَس بے ثبات و فانی ہے

بس محبت ہی جاوِدانی ہے

تُم نے سمجھا ہے زندگی جس کو

وہ کسی عکس کی کہانی ہے

چند لمحے نِشاط کے لیکن

غم سے لبریز زندگانی ہے

کیا کہا ! چند پل خوشی کے بھی
!!!
یہ تو بس تیری مہربانی ہے

تو نے واعظ کبھی نہیں چکھی
!!!!!!!!
آہ ، کیسے کٹی جوانی ہے!!!

اُن کے در پر نِثار ہو جائیے

جان تو یوں بھی آنی جانی ہے

عمر بھر کی بیاض ہے صاحب

ایک ہی رات میں سنانی ہے

اس کی آنکھیں ہیں جھیل سی حمّاد

اور اشکوں کی اک روانی ہے


محمد حماد یونُس خان
صدائے رستاخیز

تھمتی نہیں ہے وقت کی رفتار دیکھنا

تھمتی نہیں ہے وقت کی رفتار دیکھنا

 

تھمتی نہیں ہے وقت کی رفتار دیکھنا

سو ، مِٹ نہ جائے حسرتِ دیدار دیکھنا

لائے گا پِھر سے حق ک اُجالا نویدِ صُبح

اے اہلِ شب بہ دیدۂ بیدار دیکھنا

تُم اپنے تِیر و تیغ سنبھالو حریمِ ناز

ہم ہیں اسی سِتم کے طلبگار ، دیکھنا

ظُلم و سِتم کا جب کہِیں دربار دیکھنا

پِھر تم کبھی حُسینؓ کا اِنکار دیکھنا

لو چل دِیا ہے عِشق ابھی کُوئے یار کو

تُم اس کی آن بان سوئے دار دیکھنا

حمّادؔ ، اُٹھ ، چلیں گے ذرا ہم بھی سُوئے دوست

سب کچھ مگر بہ روزنِ دیوار دیکھنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

اگر وہ خواب میں آنے کا فیصلہ دیتے


اگر وہ خواب میں آنے کا فیصلہ دیتے



اگر وہ خواب میں آنے کا فیصلہ دیتے
 
تَھپَک کے آنکھ تو کیا دل کو بھی سُلا دیتے
 
کھڑے تھے دشت کے وہ دوسرے کِنارے پر

اب اتنی دور سے کیونکر انہیں صدا دیتے

بہ پاسِ صحبتِ یاراں ، خفا سہی ہم سے
 
وہ اہلِ بزم کی خاطر ہی مُسکُرا دیتے

جِسے گُلاب دِیا ، اُس کو دِل بھی سونپ دِیا

اب اِس سے بڑھ کے بھلا ہم کِسی کو کیا دیتے

جو مِہربان نظر سے وہ دیکھتا ہم کو

یقین کر ، کہ اُسے دل سے ہم دُعا دیتے

رَگوں کو حرف و حِکایت کا چیرتا تھا دُھواں

وگرنہ ہم تو تِرے سارے خط جلا دیتے

وہی فریب ، وہی سنگِ دوستاں حمادؔ

وہ اب کے عِید پہ تحفہ کوئی نیا دیتے

محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

جمعہ، 12 اکتوبر، 2018

ﺻﺒﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ

 ﺻﺒﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ




ﺻﺒﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ 

 ﻇﻠﻢ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺍﺏ ﺳﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ

ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﻋﻆ ﮐﻮ ﭘﮭﯿﺮ ﺩﻭ ﺻﺎﺣﺐ

ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﮞ ﻧﮧ ﺍﺏ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ

ﺣﮑﻢِ ﺣﺎﮐﻢ ﮨﮯ ﺑﻌﺪِ ﺟﻮﺭ ﻭ ﺳﺘﻢ

ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯽ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ

ﺍﯾﮏ ﭼِﭩﮭﯽ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ

ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﮐﺐ ﺍﺳﮯ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺋﮯ
 !!!
ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﻏﻠﻐﻠﮧ ﺳﺮِ ﻣﺤﻔﻞ

ﺳﺮِ ﻣﻘﺘﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ

ﺗﮭﯽ ﺳﺮِ ﺑﺰﻡ ﺧﻮﺏ ﻗﻠﻘﻞِ ﻣﮯ

ﺩﺍﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﻮ ﭘِﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ

ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﺰﮐﺮﮦ ﺗﺮﺍ ﺣﻤﺎﺩؔ

ﺗﺠھ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣِﻼ ﺟﺎﺋﮯ

ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ ﺧﺎﻥ
ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰؔ

چُپکے ہی تِرے در سے گُزَر جاتا ہُوں اکثر

چُپکے ہی تِرے در سے گُزَر جاتا ہُوں اکثر

 



چُپکے ہی تِرے در سے گُزَر جاتا ہُوں اکثر
 
  لیکن نہیں معلوم ، کِدھر جاتا ہُوں اکثر

پوچھے جو کوئی "تم نے کبھی کی ہے محبت؟؟؟

 پھر کتنی صفائی سے مُکَر جاتا ہُوں اکثر
 
!!!کیا مجھ کو غرَض تیرے رُخِ رشکِ قمَر سے
 
مَیں تو تِرے ہاتھوں پہ ہی مر جاتا ہُوں اکثر
 
چاہے جو کوئی تیرے سوا جوڑنا مجھ کو
 
جُڑتا نہیں مَیں ، اور بکھر جاتا ہُوں اکثر
 
کیا جانِیے دریا ہُوں ، سمَندر ہُوں کہ جُو ہُوں
 
چڑھتا ہُوں کبھی ، اور اُتَر جاتا ہُوں اکثر
 
جب دردِ جِگر حد سے گزَر جائے تو حمّادؔ
 
پیالہ ہُوں ، ذرا جلد ہی بھر جاتا ہُوں اکثر
 
محمد حماد یونس خان
 
صدائے رستاخیزؔ

ﺩﻝ ﺳﺎ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﮨﻮﮔﺎ

ﺩﻝ ﺳﺎ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﮨﻮﮔﺎ



ﺩﻝ ﺳﺎ ﺧﺎﻟﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﮨﻮﮔﺎ
 
ﮐﻮﺋﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﮕﺮ ﮨﻮﮔﺎ
 
ﻣﮯ ﮐﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺨَﯿُّﻼﺕ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮫ
 
ﺩﺳﺖِ ﺳﺎﻗﯽ ﮨﯽ ﮐُﻮﺯﮦ ﮔﺮ ﮨﻮﮔﺎ
 
ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻧﮕﯿﻦ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﻣﯿﺨﺎﻧﮧ؟
 
ﺁﺝ ﻭﺍﻋﻆ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﮨﻮ ﮔﺎ
 
شیخ جی ، قافلے تو بِہکیں گے
 
آپ جیسا جو راہبر ہوگا
 
کوئی دشمن بھی آس پاس نہ تھا
 
تیرا قاتل تو چارہ گر ہوگا
 
ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﯿﺎﺳﺎ ﮨﯽ
 
ﻗﺘﻞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﻣَﮯ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮨﻮگا
 
دشت میں کوئی قیس ، نہ لیلیٰ
 
اب وہاں ﮐﻮﻥ ﻣﻨﺘﻈﺮ ہوگا

 ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﮨﮯ ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰؔ
 
ﮐﭽھ ﺗﻮ ﺁﺳﺎﻥ ﺍﺏ ﺳﻔﺮ ﮨﻮ ﮔﺎ

حماد یونس
صدائے رستاخیز

جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

ﮨﻢ ﺭﮨﯿﮟ کہ ﻣِﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺗﻢ ﻣﮕﺮ ﺭﮨﻮ ﻟﻮﮔﻮ

 ﮨﻢ ﺭﮨﯿﮟ کہ ﻣِﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺗﻢ ﻣﮕﺮ ﺭﮨﻮ ﻟﻮﮔﻮ



ﮨﻢ ﺭﮨﯿﮟ کہ ﻣِﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺗﻢ ﻣﮕﺮ ﺭﮨﻮ ﻟﻮﮔﻮ
 
ﮔِﺮ نہ ﺟﺎﻧﺎ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ، ﺩﯾﮑھ ﮐﺮ ﭼﻠﻮ ﻟﻮﮔﻮ
 
ﮐﺐ ﺗﻠﮏ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗُﻢ
 
ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﭽھ ﺳﻨﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ، ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﭽھ ﮐﮩﻮ ﻟﻮﮔﻮ
 
ﺗﻢ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﻮ ، ﺳﺎﻧﺲ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﻮ
 
ﺟﻮ ﺳﺘﻢ ﮐﺮﻭ ﻟﻮﮔﻮ ، سامنے ﺭﮨﻮ ﻟﻮﮔﻮ
 
ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻓﺼﯿﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ، ﺩﺭدِ ﮨﺠﺮ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ
 
ﻏﻢ ﮐﯽ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ ، ﮔﮭﺮ ﭘﮧ ﮨﯽ ﺭﮨﻮ ﻟﻮﮔﻮ
 
دل کے زﺧﻢ ﮔﮩﺮﮮ ﮨﯿﮟ ، ﺍﮨﻞِ ﺣَﮑﻢ ﺑﮩﺮﮮ ﮨﯿﮟ
 
ﺳﺎﻧﺲ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﺮﮮ ﮨﯿﮟ ، ﺗﻢ ﻣﮕﺮ اُٹھو ﻟﻮﮔﻮ
 
ﯾﮧ ﺣﻤﺎﺩؔ ﺑﯿﭽﺎﺭﺍ ، ﭘِﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍٓﻭﺍﺭﮦ
 
ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺑﻨﺠﺎﺭﺍ ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﻮ ﻟﻮﮔﻮ
 
ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ ﺧﺎﻥ
ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰ

ﯾﮧ ﺗَﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺗِﺮﮮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﯾﮧ ﺗَﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺗِﺮﮮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ


 ﯾﮧ ﺗَﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻏﻢ ﺳﮯ ﺗِﺮﮮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

اﮮ ﻣﻮﺕ ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

 ﺑﺲ ﺍﮎ ﻧﮕﺎﮦِ ﺷﻮﻕ ﮐﯽ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ

 ﺩﻭ ﺻﺪ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﺎﺭ ﺗِﺮﮮ ﺩﺭ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﺎﺕ

ﺯﺧﻢِ ﺟﮕﺮ ﮐﮯ ﺧﻮﻥ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺗﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮑﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺕ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﮨﻮﺵ ﻣﻨﺪ ﮔﺮ

ﭘﮭﺮ ﮐﺲ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﮕﯿﺮ ﻣِﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﺻﻒ ﮐﻮ ﭼﯿﺮ ﮐﺮ ﺍٓﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻤﺎﺩؔ

ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮔِﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ
ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰؔ

حمد


حمدِ باری تعالیٰ
ــــــــــــــــــــــــ
  کیسے مِدحَت کروں بیاں تیری

قلَم و لوح و کُن فِکاں تیری

ہر مسافِر ، ہراِک سفینے کا

پاسباں ، شانِ نِگہباں تیری

جو نفَس ہو ، فنا کا راہی ہے

 ایک بس ذاتِ جاوِداں ، تیری

میرا تو کُچھ نہیں ہے اِس تن میں

دِل تِرا ، جاں تِری ، زباں تیری

الاحد ، الاحد کے جزبے کو

ایک وحدت ہے سائباں تیری

جبر کی اِس طویل تر شب میں

ترجُماں صبحُ کی اذاں تیری

بخش دے عاصئِ حمادؔ کو تُو

اِس پہ رحمت ہو مہرباں تیری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
محمد حماد یونُس خان
صدائے رستاخیز

ﻣﻨﺼﺒﻮﮞ ﭘﮧ ﻓﺎﺋﺾ ﮨﯿﮟ ،ﺫﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ

ﻣﻨﺼﺒﻮﮞ ﭘﮧ ﻓﺎﺋﺾ ﮨﯿﮟ ،ﺫﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ
ﻣﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ



ﻣﻨﺼﺒﻮﮞ ﭘﮧ ﻓﺎﺋﺾ ﮨﯿﮟ ،ﺫﻟﺘﻮﮞ ﮐﮯ
ﻣﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ
ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺑﮯ ﺑﺴﯽ سے
ہارے ﻟﻮﮒ
ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﻧﮕﺮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ،ﮐﯿﺴﮯ
ﺩﺭﺑﺪﺭ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﻧﺬﺭ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ، ﺁﮦ ﮐﺘﻨﮯ
ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﯽ ،ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ
ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﮨﯿﮟ
ﻋﺸﻖ ﺭﺍﮦ ﺑﺮ ﺍﻥ ﮐﺎ ،ﮨﺎﺋﮯ ﺑﮯ ﺳﮩﺎﺭﮮ
ﻟﻮﮒ
ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺍﮨﺎﮞ ﮨﯿﮟ ، ﻧﯿﻨﺪ ﺳﮯ
ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮨﯿﮟ
ﺩﺷﺖِ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ،ﭼﺎﻧﺪ ﺍﻭﺭ
ﺳﺘﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ
ﮔﻮﻧﺞ ﺍﭨﮭﯽ ﻓﻀﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ، ﭘﮭﺮ
ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰ
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﭼﻞ ﭘﮍﻭ ﺣﻤﺎﺩ ،ﭼﻞ ﭘﮍﮮ
ﮨﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ
ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ ﺧﺎﻥ
(ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰ)

ہاں ٹھیک ہے میں تجھ سے محبت نہیں کرتا


ﮨﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ تجھ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ



 ﮨﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺠھ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

 ﭘﺎﮔﻞ ﮨُﻮﮞ ، ﻣﮕﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﺣﻤﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﮐﮩﮧ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﻖ ﺑﺎﺕ ﻧﺸﮯ ﻣﯿﮟ کوئی مَیکش


ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﺳﮩﯽ ، ﻗﺘﻞِ ﺻﺪﺍﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ ﮔﺎ حدِ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ کر ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ

ﻣﺤﺴﻮﺱ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﺭﺍﮨﺰﻥ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺧﻄﺮهٔ ﺟﺎﮞ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ رہبر

ﺟﻮ ﻗﺎﻓﻠﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ

ﺣﻤﺎﺩؔ ﺳﺒﮭﯽ ﺯﺧﻢ ﺭﻓﯿﻘﻮﮞ ﻧﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ

ﺩﺷﻤﻦ ﺗَﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﺴﺎﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ ﺧﺎﻥ
ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺭﺳﺘﺎﺧﯿﺰؔ

تو کہاں چلا ، او شکستہ پا ، ذرا بات سن

تو کہاں چلا ، او شکستہ پا ، ذرا بات سن




تُو کہاں چلا ؟ او شکستہ پا ، ذرا بات سُن

کہ گُزر گیا ، تِرا قافلہ ، ذرا بات سُن

میں کھڑا تھا آج جب اپنے عکس کے روبرو

تَو چٹَخ گیا ، مِرا آئینہ ، ذرا بات سن

ذرا بات سُن ، مجھے یہ بتا ، اے امیرِ شہر

وہ جو شہر تھا ، اُسے کیا ہوا ؟ ذرا بات سن

  تجھے کیا خبر مِرے مَیکشوں کے مقام کی؟

تو بھی پی ذرا ، مِرے واعظا ، ذرا بات سن

میں نشے میں تھا ، مُجھے کچھ خبر نہیں ساقیا

یہاں میکدہ تھا ، کہاں گیا ؟ ذرا بات سن

وہ حمادؔ محوِ کلام تھا کِسی اور سے

تُو ہی سُن ذرا ، مِرے ہمنوا ، ذرا بات سن

محمد حماد یونس خان

صدائے رستاخیزؔ

عشق کا رازداں بھی ہو کوئی

عشق کا رازداں بھی ہو کوئی



عشق  کا رازداں بھی ہو کوئی

حالِ دل پھر بیاں بھی ہو کوئی

ہم لُٹا دیں گے جان کو اپنی

ہاں ، مگر جانِ جاں بھی ہو کوئی

تو ہے گر بے مِہر تو کیا غم ہے؟

ہاں مگر ، مہرباں بھی ہو کوئی

ہو محبت اگر زمانے میں

پھر زمان و مکاں بھی ہو کوئی

بول کچھ دل جلوں کے حق میں مگر

تیرے منہ میں زباں بھی ہو کوئی

دشت کو تھا کشاں کشاں حمادؔ

نقشِ پا کا نشاں بھی ہو کوئی

 حماد یونس

صدائے رستاخیز

نمکین غزل

چھت سے اک روز گرا دوں اس کو



ﭼﮭﺖ ﺳﮯ ﺍِﮎ ﺭﻭﺯ ﮔِﺮﺍ ﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ

ﻣﺴﺘﻘِﻞ ﻧﯿﻨﺪ ﺳُﻼ ﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ

ﺟﻮ ﺳﻤﺠﮭﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﻣِﺮﯼ


 ﭼﻮﮎ ﭘﺮ ﻣﺮﻏﺎ ﺑﻨﺎ ﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ

ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﭘﮧ ﻣﺎﺭﻭﮞ ﺟﻮﺗﮯ

ﺍِﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﺨﺖ ﺳﺰﺍ ﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ

ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﻏُﺼﮧ

ﺍِﺳﺘﺮﯼ ﮔﺮﻡ ﻟﮕﺎﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ

ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﮧ ﻣَﯿﮟ ﺍُﺳﮯ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﻭﮞ

ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺯﮨﺮ ﮐﮭﻼ ﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ

ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺳﺨﺖ ﺗﻤﻨّﺎ ﺣﻤّﺎﺩؔ

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣَﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﻻ ﺩﻭﮞ ﺍُﺱ ﮐﻮ
  ﻣﺤﻤﺪ ﺣﻤﺎﺩ ﯾﻮﻧﺲ ﺧﺎﻥ

صداۓ رستاخیز