عِشق کی نگری میں کوئی آشیانہ چاہیے
عِشق کی نگری میں کوئی آشیانہ چاہیے
اب اُفَق کے پار ہی اِک گھر بنانا چاہِیے
مُہر بر لب بھی رجَز پیہم سُنانا چاہِیے
ہاتھ کٹتے بھی رہیں پرچم اُٹھانا چاہِیے
چارہ گر کی بے رُخی نے یہ سِکھایا ہے ہمیں
ڈوبتوں کو ڈوبتے ہی چھوڑ جانا چاہِیے
مےکدے کی بات چھیڑو بر سبیلِ تذکرہ
گُفتگو کے واسطے کوئی بہانہ چاہِیے
رُو بَرو آجائیے یوں ہی اچانک ، ایک دِن
ہِمّتوں اور حوصلوں کو آزمانا چاہِیے
راہِ اُلفت کا یہی حمّادؔ ہے پِہلا سبَق
جیتنے کی جُستجو میں ہار جانا چاہِیے
۔۔۔۔۔۔
محمّد حمّاد یونس خان
صدائے رستاخیز