کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا
کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا
ایک تو تِیرِ نظَر ، وہ بھی نِشانے والا
المِیہ کم تو نہیں راہِ وفا کا یارو
بات کرتا ہی نہیں بات چلانے والا
جبر والوں کے سبھی حُکم مِری ٹھوکر پر
مَیں ، کہ سر ایک ہی چوکھٹ پہ جُھکانے والا
اُس کی آنکھوں کی اُداسی سے خبَر مِلتی ہے
شہر والو ، کوئی سیلاب ہے آنے والا
!!!
تُو کسی میرؔ کی ، غالبؔ کی غزل ہے ، اور مَیں
خاص کِردار ، کِسی عام فسانے والا
تُو کوئی نظم ، کہ مَیں ہُوں تِرا شاعر جیسے
تُو کوئی گیت ، کہ مَیں ہُوں تِرا گانے والا
سر جو نیزے پہ ہو ، تن ہو مِرا سجدے میں حمادؔ
ایسے سجدے میں بڑا لُطف ہے آنے والا
۔۔۔۔۔
محمّد حمّاد یونُس خان صدائے رستاخیز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں