پیر، 15 اکتوبر، 2018

کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا

 کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا



 کیا سنائیں ، کہ نہیں حال سُنانے والا

ایک تو تِیرِ نظَر ، وہ بھی نِشانے والا

المِیہ کم تو نہیں راہِ وفا کا یارو

بات کرتا ہی نہیں بات چلانے والا

جبر والوں کے سبھی حُکم مِری ٹھوکر پر

مَیں ، کہ سر ایک ہی چوکھٹ پہ جُھکانے والا

اُس کی آنکھوں کی اُداسی سے خبَر مِلتی ہے

شہر والو ، کوئی سیلاب ہے آنے والا
!!!
تُو کسی میرؔ کی ، غالبؔ کی غزل ہے ، اور مَیں

خاص کِردار ، کِسی عام فسانے والا

تُو کوئی نظم ، کہ مَیں ہُوں تِرا شاعر جیسے

تُو کوئی گیت ، کہ مَیں ہُوں تِرا گانے والا

سر جو نیزے پہ ہو ، تن ہو مِرا سجدے میں حمادؔ

ایسے سجدے میں بڑا لُطف ہے آنے والا
۔۔۔۔۔
محمّد حمّاد یونُس خان
صدائے رستاخیز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں