جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

تو کہاں چلا ، او شکستہ پا ، ذرا بات سن

تو کہاں چلا ، او شکستہ پا ، ذرا بات سن




تُو کہاں چلا ؟ او شکستہ پا ، ذرا بات سُن

کہ گُزر گیا ، تِرا قافلہ ، ذرا بات سُن

میں کھڑا تھا آج جب اپنے عکس کے روبرو

تَو چٹَخ گیا ، مِرا آئینہ ، ذرا بات سن

ذرا بات سُن ، مجھے یہ بتا ، اے امیرِ شہر

وہ جو شہر تھا ، اُسے کیا ہوا ؟ ذرا بات سن

  تجھے کیا خبر مِرے مَیکشوں کے مقام کی؟

تو بھی پی ذرا ، مِرے واعظا ، ذرا بات سن

میں نشے میں تھا ، مُجھے کچھ خبر نہیں ساقیا

یہاں میکدہ تھا ، کہاں گیا ؟ ذرا بات سن

وہ حمادؔ محوِ کلام تھا کِسی اور سے

تُو ہی سُن ذرا ، مِرے ہمنوا ، ذرا بات سن

محمد حماد یونس خان

صدائے رستاخیزؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں