رات کا وقت ہے ، تنہائی ہے
رات کا وقت ہے ، تنہائی ہے
تہمتِ عِشق ہے ، رُسوائی ہے
پھر کسی یاد نے دستک دی ہے
پھر مِری آنکھ جو بھر آئی ہے
اس کو الزام نہ دینا یارو
خود مِرا دِل بھی تو ہرجائی ہے
دیدۂ تر ، کِسے معلوم نہیں!!!
کتنے سیلاب تُو لے آئی ہے
اُن کے رخسار کی مت بات کرو
اُن کا تو شیخ بھی شیدائی ہے
ڈوبتی سانس ، اُبھرتے ہُوئے ساز
کہیں نوحے ، کہیں شِہنائی ہے
ایک میں ہی نہیں بِکھرا بِکھرا
تیری صورت بھی تو کُملائی ہے
اُس نے دیکھا جو پلَٹ کر حمّادؔ
گویا صحرا میں بہار آئی ہے
محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں