اتوار، 14 اکتوبر، 2018

عُمروں کی مُسافت کا اب اِتنا تو صِلہ دے

عُمروں کی مُسافت کا اب اِتنا تو صِلہ دے



عُمروں کی مُسافت کا اب اِتنا تو صِلہ دے
 
آنکھوں کی زبانی کوئی پیغام سُنا دے
 
نازک ہے بہت مرحلۂ شوق کی منزل
 
کب کوئی خطا اپنی ہی نظروں سے گِرا دے

گُزرے ہُوئے لمحوں کا فسانہ کوئی چھیڑو

ماضی کے دریچوں سے کوئی خواب صدا دے

اِک مَیں ، کہ پُکاروں تُجھے ہر کوہ و دمن سے

اِک تُو ہے کہ ہر چند مِرا نام بُھلا دے

جب تک یہ شبِ تار مُسَلّط ہے جہاں پر

حمّادؔ ، ذرا دیپ کی لَو اور بڑھا دے

محمد حماد یونس خان
صدائے رستاخیز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں